فرعون کی کہانی: متکبر ظالم اور ظالموں کا انجام

لافانی قرآنی کہانیوں کی تاریخ میں فرعون کی طرح کسی ظالم کا تذکرہ کثرت سے نہیں ہوا، جو صریح ناانصافی، اندھے تکبر اور خدا کی نعمتوں کی صریح ناشکری کی علامت ہے۔ اس کی کہانی محض ماضی کا ایک گزرتا ہوا تاریخی واقعہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک ابدی سبق ہے جو وقت اور جگہ سے ماورا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مطلق العنان طاقت اور جابرانہ اختیار انسانی روح کو الوہیت کے دعویٰ تک کس حد تک خراب کر سکتا ہے، اور ظالموں کی ناگزیر قسمت آگے ہے، چاہے ان کا ظلم کتنا ہی طویل ہو یا ان کا ظلم کتنا ہی بڑا ہو۔ یہ مطلق ناانصافی کے درمیان ایک ابدی جدوجہد کی کہانی ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے، اور اس کھلی سچائی کے درمیان جس سے باطل آگے یا پیچھے سے نہیں پہنچ سکتا۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور مظلوم کی حمایت کرنے اور متکبروں اور ناشکروں کو تباہ کرنے میں اس کی مطلق قدرت کا پتہ چلتا ہے۔
متکبر بادشاہ اور غیر منصفانہ غلامی: موسیٰ سے پہلے فرعون کے ماتحت مصر
فرعون مصر کا بادشاہ تھا اور اس کا غرور، غرور اور تکبر اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ وہ اپنے لیے الوہیت اور خدائی کا دعویٰ کرتا ہے، جیسا کہ اس نے اپنی قوم سے کہا: ’’میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں‘‘ (النصیحت: 24) اور اس نے کہا: ’’میں تمہارے لیے اپنے سوا کسی اور معبود کو نہیں جانتا‘‘ (القصص: 38). اس نے اپنی قوم پر اپنا مکمل اختیار مسلط کیا، بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا، جو حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہیں، جو یوسف علیہ السلام کے زمانے سے مصر میں مقیم تھے۔ فرعون نے ان کو اپنی سرزمین میں ایک کمزور گروہ بنا دیا، انہیں شدید ترین اذیتیں اور ذلت کا نشانہ بنایا، انہیں محنت مزدوری اور بڑی تعمیرات کے لیے استعمال کیا، ان کے نوزائیدہ لڑکوں کو ذبح کیا اور عورتوں کو زندہ چھوڑ دیا۔ یہ وحشیانہ ظلم و ستم فرعون کے ایک خواب یا اس کے پادریوں سے ملنے والی ایک پیشن گوئی سے ہوا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والا بچہ اس کی بادشاہی اور اس کے ظلم کے خاتمے کا سبب بنے گا۔
قرآنی شواہد: قرآن کریم نے سورۃ القصص میں ان کے ظلم و جبر کے تحت ان کے حالات اور اس کی قوم کے حالات کو بیان کرتے ہوئے اس کے ظلم و ستم کو نمایاں کیا ہے:
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ
(کہانیاں: 4).
خوف، توقع اور ناقابل برداشت ظلم و ستم کے اس ماحول میں، خدا کی حکمت اور قدرت نے چاہا کہ بنی اسرائیل سے ایک بچہ پیدا ہو، جو بعد میں اس کا کھلا دشمن اور اس کی تباہی کا سبب بنے: موسیٰ علیہ السلام ۔
فرعون کے گھر میں موسیٰ کی پیدائش اور پرورش کی کہانی: حیرت انگیز الہی حکمت اور ناقابل فہم منصوبہ بندی
موسیٰ کی پیدائش کی کہانی میں، خدا کی پہلی نشانی فرعون کی تقدیر کے لیے اس کے معجزاتی منصوبے میں ظاہر ہوتی ہے، اور کس طرح خدا معاملات کو ان طریقوں سے منظم کرتا ہے جن کی انسانوں کو کم سے کم توقع ہوتی ہے۔ موسیٰ کی ماں، فرعون اور اس کے سپاہیوں کی بربریت سے اپنے نوزائیدہ بچے کے لیے خوف اور الجھن کے درمیان، ایک عظیم اور انتہائی عجیب الٰہی حکم سے متاثر ہوئی، جو کہ تمام انسانی منطقوں سے بالاتر ہے: اپنے نوزائیدہ بیٹے کو لکڑی کے ایک چھوٹے سے تابوت میں رکھ کر بہتے ہوئے دریائے نیل میں پھینک دے۔ یہ اس کے ایمان اور اپنے رب پر بھروسے کے لیے ایک زبردست چیلنج تھا۔ وہ کیسے اپنے ہی بچے کو دریا کی لہروں کے درمیان کسی نامعلوم قسمت میں پھینک سکتی تھی۔ لیکن اس نے اپنے رب کے وعدے پر بھروسہ کیا، جو کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، اسے اپنی طرف لوٹائے گا اور اسے رسولوں میں سے ایک بنائے گا۔
قرآنی ثبوت: خوفزدہ ماں کے دل کو سکون بخشنے والا یہ حیرت انگیز الہام سورہ طٰہٰ میں درج ہے:
وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ أُمِّ مُوسَىٰ أَنْ أَرْضِعِيهِ ۖ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي ۖ إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ
(طہٰ: 38).
چنانچہ اس نے اسے دریا میں پھینک دیا، اور اس کی بہن، مریم، چپکے سے اس کے پیچھے چل پڑی، اس کی قسمت کو بے چینی اور امید سے دیکھتی رہی۔ خدا کی قدرت اور اعلیٰ حکمت سے فرعون کے بندوں نے اسے دریا سے اٹھا لیا اور اسے فرعون اور اس کی نیک بیوی آسیہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ خدا نے آسیہ کے دل میں موسیٰ کی محبت ڈال دی، اور اس نے بچے میں نور اور معصومیت دیکھی۔ اس نے فرعون سے منت کی کہ وہ اسے قتل نہ کرے بلکہ اسے اپنا بیٹا بنائے تاکہ وہ اس کی اور اس کی آنکھوں کی خوشی ہو۔
یہاں، الہی پروویڈنس کے سلسلے میں ایک اور معجزہ سامنے آیا: شیر خوار موسیٰ نے مصر کی عورتوں میں سے اپنے پاس لائی گئی تمام گیلی نرسوں سے انکار کر دیا۔ اس کی بہن نے مشورہ دیا کہ وہ انہیں کسی ایسے گھر میں لے جائے جو اس کی پرورش اور پرورش کرے، اور وہ راضی ہو گئے۔ اس طرح، موسی کو اس کی ماں کے پاس واپس کر دیا گیا، جس نے فرعون کے محل کی دیکھ بھال میں اس کی پرورش اور دیکھ بھال کی، ایسا کرنے کا انعام حاصل کیا. اس سے خدا کا وعدہ پورا ہوا کہ وہ اسے اس کی طرف لوٹائے گا اور اسے پیغمبروں میں سے ایک بنائے گا۔ موسیٰ کی پرورش فرعون کے محل میں، عیش و عشرت میں ہوئی، حکومت اور انتظامیہ کے فنون سیکھے، لیکن ان کا دل بنی اسرائیل کے ساتھ تھا، جو محل کی دیواروں کے باہر ظلم و ستم کا شکار اور غلام بنائے جا رہے تھے۔ اس نے اپنی آنکھوں سے ان پر ڈھائے جانے والے ظلم کو دیکھا۔
قتل اور مدین کی طرف ہجرت کا واقعہ: پختگی اور عظیم پیغام لے جانے کی تیاری
جب موسیٰ بالغ ہو گئے اور ان کی جسمانی اور ذہنی قوت پوری ہو گئی تو وہ شہر میں چل رہے تھے اور دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے پایا: ان میں سے ایک بنی اسرائیل (اپنی قوم سے) اور دوسرا قبطی (فرعون کی قوم سے) تھا۔ مظلوم بنی اسرائیل نے اسے مدد کے لیے پکارا، تو موسیٰ نے قبطی کو زور سے تھپڑ مارا، غیر ارادی طور پر اسے قتل کر دیا۔ موسیٰ کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہوا اور اسے احساس ہوا کہ اس نے اپنے رویے میں غلطی کی ہے۔ اس نے توبہ اور استغفار کرتے ہوئے اپنے رب کی طرف رجوع کیا۔
قرآنی دلائل: اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی زبان پر اپنے گناہ کا اقرار کرتے ہوئے اور استغفار کرتے ہوئے فرمایا:
قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
(سورۃ القصص: 16).
فرعون کو اس واقعہ کا علم ہوا اور وہ قبطی کے بدلے میں اسے قتل کرنا چاہتا تھا۔ پھر شہر کے دور دراز علاقوں سے ایک شخص (کہا جاتا ہے کہ وہ فرعون کے خاندان سے تھا) آیا اور موسیٰ کو مشورہ دیا کہ وہ شہر سے جلدی بھاگ جائیں، کیونکہ فرعون اور اس کی قوم اسے قتل کرنے کی سازش کر رہی تھی۔ موسیٰ ڈرتے ڈرتے باہر نکلے، یہ نہیں جانتے تھے کہ کہاں جانا ہے، لیکن اس نے اپنے رب پر بھروسہ کیا اور پکارا: "اے میرے رب، مجھے ظالم لوگوں سے بچا” (القصص: 21).
موسیٰ نے مدیان کی سرزمین کی طرف رخ کیا، جو فرعون کے کنٹرول سے باہر ہے۔ ایک مشکل سفر کے بعد، وہ ایک کنویں پر پہنچا اور دیکھا کہ چرواہے اپنے ریوڑ کو پانی پلا رہے ہیں اور دو عورتیں اپنی بھیڑوں کو پانی سے روکے ہوئے ہیں۔ موسیٰ آگے بڑھے اور ان کو پانی پلایا، پھر سایہ کی طرف پیچھے ہٹ گئے اور اپنے رب کو پکارا۔ ان کے والد حضرت شعیب علیہ السلام (یا اہل مدین میں سے ایک نیک آدمی) موسیٰ کی طاقت اور امانت کو جانتے تھے، اس لیے انہوں نے انہیں اپنے پاس بلایا اور ان کی شادی اپنی دو بیٹیوں میں سے ایک سے کر دی۔ موسیٰ نے دس سال قیام کیا، جہیز کی مدت پوری کی، فرعون کے ظلم سے دور پرامن ماحول میں، بھیڑیں چرانا سیکھا، بالغ ہوئے اور عظیم پیغام لے جانے اور ظلم کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوئے۔
وحی اور پیشین گوئی: خدا کی تقریر اور نہ رکنے والے معجزات
موسیٰ نے طے شدہ مدت پوری کرنے کے بعد، وہ اپنے خاندان کے ساتھ مصر واپس چلا گیا۔ واپسی پر، ایک سرد، تاریک رات میں، کوہ سینا کے قریب، اس نے دور سے آگ دیکھی۔ وہ اس معاملے کی چھان بین کے لیے گئے، اور وہاں ایک زبردست معرکہ آرائی ہوئی، اور براہ راست الٰہی ابلاغ ہوا جو کسی اور نبی کو نہیں دیا گیا تھا۔ اس کے رب نے اسے پہاڑ سینا کے دائیں جانب سے درخت کے مبارک مقام پر پکارا۔
قرآنی شواہد: قرآن پاک نے اس خوفناک تصادم کو بیان کیا ہے جس میں موسیٰ کی نبوت کے آغاز کا مشاہدہ سورہ طہٰ اور سورۃ القصص میں ہوا ہے:
فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ مِن شَاطِئِ الْوَادِ الْأَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَن يَا مُوسَىٰ إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (30) وَأَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ أَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ ۖ إِنَّكَ مِنَ الْآمِنِينَ (31) اسْلُكْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِن غَيْرِ سُوءٍ ۖ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ ۖ فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ (32)
(سورۃ القصص: 30-32).
اس عظیم معرکے میں، خدا نے اسے فرعون کے سامنے اپنی نبوت ثابت کرنے کے لیے دو عظیم معجزے عطا کیے: اس کا عصا جو رینگنے والے سانپ میں بدل گیا (ایک بڑا سانپ)، اور اس کا ہاتھ جو بغیر نقصان کے سفید نکلا (ایک چمکدار سفیدی سے چمکتا ہوا)۔ اس نے اسے حکم دیا کہ وہ فرعون کے پاس جائے تاکہ اسے خدا کی وحدانیت کی دعوت دے اور بنی اسرائیل کو اس کی غلامی سے آزاد کرے۔ موسیٰ نے اس کام کی وسعت پر خوف محسوس کیا، اور اپنے رب سے کہا کہ وہ اپنے بھائی ہارون کو اپنے ساتھ بھیجے، کیونکہ وہ ان سے زیادہ فصیح اور اظہار کی صلاحیت رکھتا تھا۔ خدا نے اس کی دعا کا جواب دیا اور ہارون کو ایک نبی اور وزیر بنایا تاکہ اس کے عزم کو مضبوط کیا جاسکے۔
فرعون کے ساتھ عظیم تصادم: معجزات جاری رہتے ہیں اور ضد کبھی ختم نہیں ہوتی
موسیٰ اور ہارون علیہما السلام مصر واپس آئے اور فرعون کے پاس حاضر ہوئے، اس کے سامنے خالص توحید کی دعوت پیش کی، اور اس سے بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ بھیجنے کا کہا۔ انہوں نے اس کے پاس ایسے دلائل اور معجزات پیش کیے جن سے ان کی سچائی اور نبوت ثابت ہو گئی، لیکن فرعون متکبر اور ضدی تھا اور اس کا ظلم بڑھ گیا اور اس نے ان پر جادو کا الزام لگایا۔ اس نے مصر کے سب سے ماہر جادوگروں کو ایک بڑی عید کے دن، سجاوٹ کے دن، لوگوں کے ایک بہت بڑے ہجوم کے سامنے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے، اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے اور سب کے سامنے موسیٰ کو شکست دینے کے لیے جمع کیا۔
سجاوٹ کے دن موسیٰ نے فرعون کے جادوگروں سے ملاقات کی۔ جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں نیچے پھینک دیں، اور وہ سانپوں میں تبدیل ہو گئے جو ایک عظیم بصری وہم میں حرکت کرتے ہوئے سامعین کو حیران کر رہے تھے۔ پھر موسیٰ نے اپنا عصا گرا دیا، اور وہ ایک حقیقی، بہت بڑے سانپ میں تبدیل ہو گیا، جو ان کی من گھڑت چیزوں کو کھا گیا (جادوگروں نے رسیوں اور لاٹھیوں سے جو کچھ پھینکا تھا)۔ اس شاندار معجزے کا سامنا کرتے ہوئے جو انسانی جادو کی حدوں سے تجاوز کر گیا، جادوگروں نے سمجھ لیا کہ یہ جادو نہیں ہے، بلکہ خدا کی طرف سے سچائی اور ایک الہی طاقت ہے۔ موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتے ہوئے سجدے میں گر پڑے۔
قرآنی شواہد: قرآن مجید نے سورہ طٰہٰ میں جادوگروں کے ایمان اور ان کے دلوں میں تبدیلی کی تصویر کشی کی ہے۔
قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَىٰ
(سورہ طٰہٰ: 70).
فرعون اپنے جادوگروں کے ایمان سے مشتعل ہوا، اور انہیں سخت سزا دی، ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دیے، اور انہیں سولی پر چڑھا دیا۔ لیکن وہ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے اور موت کا مقابلہ یقین کے ساتھ کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم پر موسیٰ کی سچائی کے حتمی ثبوت کے طور پر اور ان کے کفر اور ہٹ دھرمی کی سزا کے طور پر کئی نشانات (معجزات) بھیجے تاکہ شاید وہ واپس آجائیں۔ یہ نشانیاں یکے بعد دیگرے آتی رہیں۔ جب بھی ان پر کوئی آفت آتی تو وہ موسیٰ سے اس کو اٹھانے کے لیے پکارتے اور ان سے وعدہ کرتے کہ وہ ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو بھیجیں گے۔ لیکن جب خدا نے ان سے آفت کو دور کیا تو انہوں نے اپنے عہد کو توڑا اور ایک بار پھر تکبر کرنے لگے۔
قرآنی ثبوت: قرآن کریم نے ان آیات کا ذکر سورۃ الاعراف (آیت 130 سے شروع) میں اور دوسری سورتوں میں تفصیل کے ساتھ کیا ہے:
- سیلاب: موسلا دھار بارشوں اور سیلاب نے ان کی زمینیں اور گھر زیر آب آ گئے اور ان کی فصلیں تباہ کر دیں۔
- ٹڈی دل: ٹڈیوں کے بہت بڑے غول ان کی فصلوں کی باقیات کھا گئے اور باقی سب کچھ برباد کر دیا۔
- جوئیں: ان کے جسموں اور گھروں پر بڑی تعداد میں جوؤں کا پھیلنا، ان میں تکلیف اور خارش کا باعث بنتا ہے۔
- مینڈک: مینڈک ہر جگہ سیلاب آ گئے، ان کے گھر، ان کے بستر، ان کا کھانا، اور پینے کا پانی۔
- خون: نیل کا پانی اور تمام پینے کا پانی خون میں تبدیل ہو گیا، اس لیے انہیں اب پینے کے لائق کوئی پانی نہیں ملا۔
- پھلوں کی کمی: ان کی فصلیں شدید متاثر ہوتی ہیں۔
- سال: خشک سالی اور قحط جس نے ملک کو مارا۔
- ہاتھ اور لاٹھی: موسیٰ کے دو اصل معجزات۔
- لوگوں کے درمیان فرق: (یا چھڑی اور سفید ہاتھ)
یہ آیات واضح، ناقابل تردید دلیلیں تھیں، لیکن فرعون اور اس کی قوم کے دل سخت ہو گئے تھے، اور وہ صرف اور زیادہ متکبر اور ضدی ہو گئے تھے، یہاں تک کہ وہ واپس نہ آنے کے مقام پر پہنچ گئے۔
بنی اسرائیل پر ظلم و ستم: ظلم کی انتہا اور ناگزیر عذاب
ان تمام نشانیوں کے بعد، اور موسیٰ کے فرعون اور اس کی قوم کے ایمان سے مایوس ہونے کے بعد، اور دعوت و تنبیہ کے تمام ذرائع ختم ہونے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کی کہ بنی اسرائیل کے ساتھ رات کو مصر سے روانہ ہوں۔ موسیٰ نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی اور لاکھوں کی تعداد میں بنی اسرائیل کے ساتھ برسوں کی غلامی چھوڑ کر بحیرہ احمر کی طرف روانہ ہوئے۔
جب فرعون کو ان کے جانے کا علم ہوا تو وہ غصے میں آ گیا اور محسوس کر رہا تھا کہ اس کی بادشاہی ٹوٹ رہی ہے۔ اس نے اپنی بڑی فوج کو اس کے تمام گھڑ سواروں اور ساز و سامان کے ساتھ اکٹھا کیا اور بے مثال غصے اور نفرت کے ساتھ ان کے پیچھے چل پڑا، ان کو مکمل طور پر نیست و نابود کرنے کا عزم کیا۔ فرعون اور اس کی فوج نے بحیرہ احمر کے کنارے پر موسیٰ اور بنی اسرائیل کو پکڑ لیا۔ بنی اسرائیل نے اپنے آپ کو ایک ناگزیر صورت حال میں پایا: ان کے سامنے سمندر اپنی وسیع و عریض لہروں کے ساتھ، اور ان کے پیچھے فرعون کی بڑی فوج، ان کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بنی اسرائیل کے دلوں میں مایوسی اور خوف پیدا ہو گیا اور انہوں نے موسیٰ سے کہا کہ ہم ضرور مغلوب ہو جائیں گے۔ (یعنی فرعون ہمیں ضرور پکڑے گا اور ہمیں تباہ کرے گا)۔
لیکن موسیٰ علیہ السلام ثابت قدمی اور خدا کی فتح پر کامل یقین کی مثال تھے۔ اس کا ایمان ایک لمحے کے لیے بھی متزلزل نہیں ہوا، اور اس نے اطمینان اور بھروسے والے دل کے ساتھ جواب دیا، یہ جانتے ہوئے کہ خدا اس کے ساتھ ہے اور اسے کبھی مایوس نہیں کرے گا۔
قرآنی دلائل: خدا تعالیٰ نے سورۃ الشعراء میں خدا کی موجودگی کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
قَالَ كَلَّا ۖ إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ
(شاعر: 62).
اُس اہم لمحے میں، خُدا کا معجزانہ حکم موسیٰ کے پاس آیا کہ وہ اپنے لاٹھی سے سمندر پر حملہ کرے۔
قرآنی شواہد: قرآن کریم نے اس غیر معمولی معجزے کو بیان کیا ہے، جس پر خدا کی قدرت کے علاوہ کوئی ذہن یقین نہیں کر سکتا، سورۃ الشعراء میں:
فَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنِ اضْرِب بِعَصَاكَ الْبَحْرَ ۖ فَانفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ (63) وَأَزْلَفْنَا ثَمَّ الْآخَرِينَ (64) وَأَنجَيْنَا مُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ أَجْمَعِينَ (65) ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ (66)
(شاعر: 63-66).
پھر عظیم سمندر خدا کی قدرت سے الگ ہو گیا، اور جمع پانی کے دو بڑے پہاڑوں کے درمیان ایک خشک راستہ نمودار ہوا۔ موسیٰ اور بنی اسرائیل نے اسے امن و امان کے ساتھ عبور کیا۔ فرعون اور اس کے سپاہیوں نے انہیں پکڑ لیا تو وہ خشک راستے میں داخل ہو گئے۔ جس لمحے ان میں سے آخری داخل ہوا تو خدا کے حکم سے سمندر ان پر بند ہو گیا اور وہ سب ڈوب گئے اور ان میں سے ایک بھی نہ بچ سکا کہ ان کی تباہی دنیا والوں کے لیے عبرت ہو۔ فرعون کو لوگوں کے دیکھنے کے لیے ساحل پر پھینک دیا گیا تھا، اور خدا نے اس کی لاش کو محفوظ رکھا تاکہ اس کے بعد آنے والوں کے لیے نشانی بنے، جو مغرور ظالموں کے انجام کا ثبوت ہے۔
قرآنی دلائل: اللہ تعالیٰ نے سورہ یونس میں فرمایا:
فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ
(یونس: 92).
آپ ہمارے islamly.net پر مضمون میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کہانی اور ان کے معجزات کے بارے میں مزید پڑھ سکتے ہیں: موسیٰ علیہ السلام کا قصہ: عظیم معرکہ آرائی، نجات کے معجزات، اور بنی اسرائیل کی ظلم سے نجات ]
(مصری عجائب گھر میں محفوظ فرعون کی ممی کو اس کہانی کے تاریخی ثبوت کے طور پر دیکھنے کے لیے آپ اس لنک پر جا سکتے ہیں: فرعون کی ممی رمسیس II )
اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور بنی اسرائیل کو صدیوں کی غلامی اور جبر سے نجات دلائی۔ انہوں نے آزادی اور تنہا خدا کی عبادت کی ایک نئی زندگی شروع کی، جب انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح خدا نے سچائی کو برقرار رکھنے کے لئے مداخلت کی۔
نتیجہ: ظالموں کی قسمت اور خدا کی قدرت کی عظمت کے بارے میں لافانی اسباق
فرعون اور موسیٰ علیہ السلام کی کہانی، لامتناہی اسباق اور اخلاق کے ساتھ سب سے امیر قرآنی کہانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے:
- ناانصافی اور ظلم کا انجام: فرعون کی کہانی ہر اس متکبر اور ظالم شخص کے لیے ایک مستقل تنبیہ ہے جو لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور زمین پر اپنے آپ کو معبود بناتا ہے، کہ ناانصافی کا انجام بھیانک اور تکلیف دہ ہے، کہ خدا صبر کرتا ہے لیکن غفلت نہیں کرتا، اور یہ کہ خدائی انصاف لازماً حاصل ہوگا۔
- خدا کی فتح پر کامل یقین: انتہائی تاریک اور مایوس کن حالات میں بھی، جب سمندر آپ کے آگے ہے اور دشمن آپ کے پیچھے ہے، اس یقین کا کہ خدا آپ کے ساتھ ہے نجات اور نجات کی کنجی ہے، اور خدا پر مخلصانہ بھروسہ ناممکنات کے دروازے کھول دیتا ہے۔
- الہی منصوبہ بندی کی عظمت: خدا کس طرح معاملات کو ان طریقوں سے منظم کرتا ہے جن کی لوگ توقع نہیں کرتے ہیں، ظالم کے دشمن کو اس کے گھر میں کھڑا کرتا ہے، اور اسے کمزور ترین وجوہات کی بنا پر تباہ کرتا ہے (وہ پانی جس پر اسے فخر تھا اور اس پر قابو پاتا تھا)۔
- باطل کے مقابلے میں ثابت قدمی کی اہمیت: موسیٰ علیہ السلام کا قصہ انبیاء اور مبلغین حق کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، ظالموں کی بربریت سے نہ ڈرتے ہوئے ثابت قدم رہنا اور یہ فتح ان صابر مومنوں کی ہے جو خدا کے وعدے پر بھروسہ کرتے ہیں۔
- خدا کے معجزات: اس کی وحدانیت اور قدرت کا ثبوت: وہ غیر معمولی معجزات جن کے ساتھ خدا نے موسیٰ کی حمایت کی وہ خدا کی وحدانیت کا حتمی ثبوت تھا، اس کی مطلق قدرت تھی کہ وہ اپنے اولیاء کی حفاظت اور سچائی کو برقرار رکھنے کے لیے کائنات کے قوانین کو بدل دے، اور یہ کہ کائنات کی ہر طاقت اس کے حکم کے تابع ہے۔
- مشکل کے بعد راحت: پوری کہانی مشکلات کا ایک سلسلہ ہے جس کے بعد راحت ہوتی ہے، تاکہ قوم جان لے کہ مشکل کے ساتھ آسانی آتی ہے، فتح صبر کے بعد آتی ہے اور ہر آزمائش کا خاتمہ ایک تحفہ الٰہی ہے۔
فرعون کا قصہ اس بات کی دائمی گواہی ہے کہ خدا کے سوا کوئی فاتح نہیں، نتیجہ صالحین کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو مایوس نہیں کرتا۔ بلکہ، وہ ان کو بچاتا ہے، انہیں فتح اور بااختیار بناتا ہے، اور ان کے دشمنوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیتا ہے، تاکہ وہ آنے والی نسلوں کے لیے سبق کا کام کر سکیں۔
آڈیو کا خلاصہ
فرعون اور اس کے انجام کی کہانی کو ان تمام تفصیلات میں پڑھنے کے بعد آپ کے اندر سب سے اہم سبق کیا ہے؟